- Get link
- X
- Other Apps
سوچ اور الفاظ۔۔۔
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
میں ایک لامحدود کائنات میں موجود ان گنت کہکشاؤں میں گردش کرتے سینکڑوں ستاروں کے گرد گھومنے والے بے شمار سیاروں میں سے ایک ننھے سے سیارے، جسے سائنسدانوں نے زمین کا نام دیا ہے، پر موجود چند ایکڑ کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں بسنے والا مٹی کا ایک پتلا ہوں جس میں روح پھونک کر خالق کائنات نے ایک قابلِ ذکر شے بنا دیا ۔ میری عدم موجودگی ملکی آبادی میں سے ایک ہندسہ کم کر دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔میرے جاننے والے چند سو لوگوں کی نظر میں میری کیا اہمیت ہے میں نہیں جانتا مگر میرے ملک کا وزیراعظم مجھے سر آنکھوں پر بٹھاتا ہے کیونکہ اسکی صدارتی کرسی کی ایک ٹانگ میں ہوں۔ میرے نا ہونے سے وہ گرے گا نہیں مگر لڑھک ضرور جاۓ گا۔ اس کائنات میں میری حیثیت سمندر کے ننھے سے قطرے جیسی ہے جو اکیلا ہو تو ایک سیکنڈ میں بھاپ بن کر اڑ جاتا ہے مگر وہی قطرہ جب اپنے ساتھیوں کی بانہوں میں بانہیں ڈال کر میدان میں اترتا ہے تو وقت کے فرعون کو اپنے شکنجے میں اس طرح جکڑتا ہے کہ اسکی روح کو سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیتا ہے۔
علامہ اقبال اس موقع پر فرماتے ہیں۔۔۔
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں
میں آسمان پر چمکتے لامحدود ستاروں میں سے ایک ستارہ ہوں جسے گنتی کے وقت چاہے نظر انداز کر دیا جائے مگر ساتوں آسمانوں اور زمین کے رب نے اپنی عظمت بیان کرنے کے لیے اپنی ذات کو مجھ سے تشبیہ دی ہے۔۔۔
سورہ نور کی آیت نمبر 35 میری اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے
اللہ پاک فرماتے ہیں۔۔
"اللہ نور ہے آسمانوں اور زمین کا، اسکے نور کی مثال مثل ایک طاق کے ہے جس میں ایک چراغ ہو اور چراغ شیشے کی قندیل میں ہو اور شیشہ مثل چمکتے ہوئے ستارے کے ہو"
میں اس نور کو اس وقت اپنے اندر بھی محسوس کرتا ہوں جب بےجان نظارے میرے دم سے مسکرانے لگتے ہیں۔ میں خدا کے بنائے گئے قدرتی مناظر، پہاڑوں، دریاؤں اور سمندروں کے کنارے کھڑا ہو کر ان میں زندگی کی لہر دوڑا سکتا ہوں۔ میری آنکھ کے بغیر ان سب کی خوبصورتی لا یعنی ہے۔ میرا ہونا مکان کو گھر کہلواتا ہے۔ یہ تھا ذکر کائنات میں میرے ہونے اور نہ ہونے کا۔ ایک معاشرے اور ایک ملت میں میرا کیا کردار ہے۔ میں اگر قابل ہوں تو میری پوری قوم قابل کہلائی جاۓ گی، میری نااہلی پوری ملت کو نااہل ثابت کر سکتی ہے۔ میری تربیت معاشرے کی تربیت ہے اور میرا بگاڑ معاشرے کا بگاڑ ہے۔ میری بےراہرروی پورے معاشرے کو زوال پزیر کر سکتی ہے کیونکہ معاشرہ میرے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر قدم آگے بڑھاتا ہے۔ میرے دماغ میں لگا زنگ میرے معاشرے کی ساکھ کو کھا سکتا ہے۔
میری ہمت، میرا عزم، میرا جوش، میرا ولولہ اور میرا جنون سترہ سال کی عمر میں سندھ فتح کروا کے میری قوم کو "جانباز قوم" کا شرف بخش سکتا ہے۔دوسری طرف میرا غصہ، میرا غضب، میرا جلال اور میرا انتقامی جذبہ جب سینے پر بم باندھ کر نکلتا تو پورا شہر تباہ کر کے میری قوم کو دہشتگرد قوم ثابت کر سکتا ہے۔ کیونکہ میں ہوں ملت کے مقدر کا ستارہ اور یہ ستارہ جب گہنا جاۓ تو پوری ملت اندھیرنگری میں ڈوب جاتی ہے۔
میں چاہوں تو راشد منہاس بن کر طیارے کی باگیں زمین کی طرف موڑ کر وطن کی ساکھ بچا لوں اور چاہوں تو بم سینے سے باندھ کر دشمن کے ٹینک کے نیچے لیٹ کر انکی بہادری کے چھکے چھڑا دوں۔
وقت کا حاکم میرے جیسا ایک فرد ہے۔ وہ اگر چاہے تو محض اپنے مقدر کا ٹمٹماتا ستارہ بن کر ملت کے مقدر کو سیاہی میں لپیٹ کے زوال کی کھائی میں گرا دے اور وہ اگر چاہے تو طیب اردگان بن کر خدمت اسلام کی تاریخ یاد رکھتے ہوئے اپنی قوم کو کامیابی سے ہم کنار کر دے۔
وہ چاہے تو ملک و ملت کا سرمایہ اپنے بینک اکاؤنٹ میں ڈال کر اپنی آل اولاد کے لیے آسمان کو چھوتی بلند وبالا عمارتیں خرید لے اور اگر وہ چاہے تو اپنی سیاست کی بنیاد مثبت تبدیلی کے مستحکم ارادے پر رکھ کر قوم کے شانہ بشانہ چلے۔
رب جو کہ وحدہُ لاشریک ہے جس کے قبضہ قدرت میں ہر ذی روح کی جان ہے وہ بھی جماعت کا اس قدر قائل ہے کہ دن میں پانچ بار فرد کو افراد ہونے کا حکم دیتا ہے اور جب توبہ کا ذکر آتا ہے تو فرد کی بجائے افراد کی توبہ پر زیادہ خوش ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ افراد کی طرح اقوام کی توبہ بھی قبول کرتا ہے بشرطیکہ قومیں مجموعی کردار سے رجوع الی اللہ کے راستے پر گامزن ہوں ۔ ترک قوم نے حالیہ سیاسی معرکوں میں ثابت کر دیا ہے کہ اب وہ کسی استعمار کے ہاتھوں کھلونا نہیں بنے گی اسلیئے اللہ تعالیٰ نے انھیں صاف ستھری، مخلص، دیانتدار، غیور اور صاحبِ علم و عمل اقتدار سے نوازا ہے۔ اسکے برعکس اگر ہم اپنا جائزہ لیں تو ہم نے برصغیر میں بطورِ قوم اسلامی تشخص قائم کرنے کے لیے بے مثال قربانیاں دے کر تاریخ رقم کر دی مگر وہ نظریہ وہ جذبہ وہ خواب پس پشت ڈال دیے گئے۔ وہ سب قربانیاں رائیگاں کر دی گئیں۔ اللہ اور اسکے رسول کے ساتھ کیے ہوے وعدے بھلا دیے گئے۔ پاکستان کو خود اپنے ہاتھوں سے توڑ کر استعماری طاقتوں کا میدان جنگ بنا دیا گیا۔ آج ہمیں کیسے حکمران ملے۔ ترکی کی تبدیلی کا دارومدار عوام کے شعور اور کاوشوں پر ہے وہاں کوئی شخص بلا عذر ووٹ ڈالنے کے عمل سے لا تعلق نہیں۔ اسے راۓ بحرحال دینی ہے مگر ہم فیصلہ سازی کے عمل سے بالکل لاتعلق ہیں۔ چند مجبور، جاہل، اور نا سمجھ لوگوں کو اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے کا اختیار دے کر سمجھتے ہیں ہم نے جمہوریت کا حق ادا کر دیا پھر جب ہمارے قانون ساز ادارے بولیوں پر بکتے ہیں اور قومی مفادات کا کاروبار کرتے ہیں تو ہم انھیں برا بھلا کہنے کے لئے اپنا بھرپور حق تنقید استعمال کرتے ہوئے زمین و آسمان کے قلابے ملا دیتے ہیں۔
ترکی کس طرح ترقی کی منازل طے کر رہا ہے ہم دیکھ رہے ہیں۔ سائیکل کو ترسنے والے ہوائی جہازوں پر آ جا رہے ہیں، نان جویں کو ترسنے والے نعمتوں میں کھیل رہے ہیں۔ کیا ان پر آسمان سے کوئ خزانہ برسا ہے یا ان کی زمین نے سونے کے پہاڑ اگل دیے ہیں۔
آج یورپی یونین کی نظریں ترکی کی ترقی پر ہیں۔ ترکی دنیا کی پانچویں بڑی معشیت اور چین کے بعد دوسری بڑی طاقت بن کر دنیا کے نقشے پر ابھرا ہے۔ اسکا سہرا عوام کے درست انتخاب اور قیادت کے سر ہے۔ یہ ترقی اور یہ کامیابی پاکستان کا مقدر بھی ہو سکتی تھی مگر ہم انتظار میں ہیں کہ یہ خوشحالی یا تو کوئی ہمیں تحفے میں پیش کرے یا آسمان سے ٹپکے۔
علامہ اقبال فرماتے ہیں
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو خیال جس کو آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
ہم اپنے ساتھ وفادار اور اپنے خالق کے ساتھ مخلص ہو جائیں تو چند سالوں میں دنیا کے نقشے پرغیرت مند، خوشحال اور ترقی یافتہ قوم بن کر ابھر سکتے ہیں اور علامہ اقبال کے اس شعر کی بخوبی لاج رکھ سکتے ہیں۔
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ۔۔
Comments
Post a Comment
Please do not enter any spam link in the comment box.